پاکستان میں سائیکل کا پہیہ دوبارہ گھومنے لگا 🚴♂️
بھی پاکستانی گلی کوچوں کی پہچان سمجھی جانے والی سائیکل ایک عرصے تک پس منظر میں چلی گئی تھی، لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ آج پھر سے یہ انڈسٹری نئی جان پکڑ رہی ہے۔ مہنگے پٹرول اور موٹر سائیکل کی بڑھتی قیمتوں نے عام لوگوں کو متبادل سوچنے پر مجبور کیا، اور نتیجہ یہ نکلا کہ سائیکل کی مانگ اور پیداوار دونوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
8/17/20251 min read


پاکستان میں سائیکل کا پہیہ دوبارہ گھومنے لگا 🚴♂️
کبھی پاکستانی گلی کوچوں کی پہچان سمجھی جانے والی سائیکل ایک عرصے تک پس منظر میں چلی گئی تھی، لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ آج پھر سے یہ انڈسٹری نئی جان پکڑ رہی ہے۔ مہنگے پٹرول اور موٹر سائیکل کی بڑھتی قیمتوں نے عام لوگوں کو متبادل سوچنے پر مجبور کیا، اور نتیجہ یہ نکلا کہ سائیکل کی مانگ اور پیداوار دونوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
سائیکل مارکیٹ کا حال
لاہور کی مشہور نیلا گنبد سائیکل مارکیٹ کے صدر ماجد شاہین کے مطابق موٹر سائیکل کی قیمت، جو پہلے 75 ہزار روپے تک تھی، اب اڑھائی لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین بچوں کو اسکول لے جانے اور لوگ قریبی سفر کے لیے سائیکل کا سہارا لینے لگے ہیں۔ صرف نیلا گنبد میں تقریباً 350 دکانیں اس وقت سائیکل فروخت کر رہی ہیں، جبکہ پورے ملک میں 15 سے 20 بڑی فیکٹریاں اور کئی چھوٹے کارخانے اس بزنس سے منسلک ہیں۔
جدید سائیکلیں اور رجحانات
تاجر محمد جہانگیر کے مطابق اب سائیکلیں پہلے جیسی نہیں رہیں۔ مارکیٹ میں کاربن فائبر فریم، گیئر سسٹم اور ڈسک بریک جیسی جدید سہولتوں والی بائیکس دستیاب ہیں۔ کچھ سائیکلوں کا وزن صرف 5 کلوگرام تک ہے۔ دیہات میں اب بھی پرانی "بابا سائیکل" کا استعمال عام ہے، مگر شہروں میں زیادہ تر لوگ اسپورٹس یا ہائبرڈ سائیکل کو ترجیح دے رہے ہیں۔
قیمت کے لحاظ سے سائیکلیں پانچ ہزار سے لے کر پانچ لاکھ روپے تک مل جاتی ہیں، جبکہ ایک اچھی کوالٹی کی سائیکل 15 سے 25 ہزار میں خریدی جا سکتی ہے۔
برانڈز اور الیکٹرک بائیکس کا بڑھتا رجحان
عبدالقیوم، جو پرانے تاجر ہیں، کہتے ہیں کہ وہ وقت تو شاید واپس نہ آئے جب سائیکل ہر گھر کی بنیادی سواری تھی۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کہ آج بھی سہراب اور ایگل جیسے پرانے برانڈز یاد کیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف امیر طبقہ اب الیکٹرک بائیکس اور اسکوٹیز کو زیادہ پسند کر رہا ہے۔
صحت اور ماحول کے لیے فائدے
ڈاکٹر وسیم صابر بلوچ، جو خود بھی سائیکلنگ کے شوقین ہیں، بتاتے ہیں کہ سائیکل چلانا صرف ایک مشغلہ نہیں بلکہ صحت کے لیے بہترین ورزش ہے۔ یہ ذیابیطس، موٹاپے اور ڈپریشن جیسے مسائل میں فائدہ مند ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ حکومت اگر طلبہ کو رعایت دے اور شہروں میں سائیکل ٹریکس بنائے تو اس رجحان کو مزید فروغ دیا جا سکتا ہے۔
سائیکلنگ کلبز اور ایونٹس
لاہور میں درجنوں سائیکلنگ کلبز سرگرم ہیں۔ مثال کے طور پر کریٹیکل ماس لاہور ہر یومِ آزادی پر سیکڑوں سائیکلسٹ کے ساتھ ریلی نکالتا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوان گروپس صبح سویرے یا رات کو دیر تک سائیکلنگ کرتے ہیں تاکہ رش اور ٹریفک کے مسائل سے بچ سکیں۔ ان کے ہفتہ وار ایونٹس میں سیکڑوں لوگ مختلف علاقوں میں سائیکل چلاتے ہیں اور پھر مل کر ناشتہ کرتے ہیں۔
خواتین کے لیے بھی یہ ایک بہترین آپشن بن سکتا ہے۔ کارپوریٹ سائیکلنگ کلب کی رکن اسما کے مطابق اگر معاشرتی رکاوٹیں کم ہوں تو خواتین سائیکلنگ کے ذریعے نہ صرف صحت مند رہ سکتی ہیں بلکہ روزمرہ کے سفر کو بھی آسان بنا سکتی ہیں۔
سائیکل اور پاکستانی ثقافت
پاکستان میں سائیکل صرف سواری نہیں بلکہ ثقافت کا حصہ بھی رہی ہے۔ "مرزا کی بائیسکل" جیسے مشہور مزاحیہ خاکے اور ابرارالحق کا گیت "آ جا توں بہہ جا سائیکل تے" اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ ہماری یادوں اور ادب میں ہمیشہ زندہ رہی ہے۔
مستقبل کی راہیں
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر حکومت سائیکل انڈسٹری کی سرپرستی کرے، بہتر انفراسٹرکچر مہیا کرے اور سائیکل ٹریکس بنائے تو پاکستان نہ صرف اپنی مقامی ضروریات پوری کر سکتا ہے بلکہ دنیا کی مارکیٹ میں بھی جگہ بنا سکتا ہے۔
Explore
Stay updated with the latest tech trends.
Connect
Discover
© 2025. All rights reserved.